Justuju Tv جستجو ٹی وی

Monday, March 2, 2009

ذوالفقار بھٹوکے ساتھ جوہواعین انصاف تھا۔شکریہ صدرمملکت


2009-03-02 00:00:00 PST
ذوالفقار بھٹوکے ساتھ جوہواعین انصاف تھا۔شکریہ صدرمملکت

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل غلام محمد کو جیسے ہی بھنک پڑی کہ مجلس قانون ساز انہیں وفاقی اسمبلی کی برطرفی کے اختیارات سے محروم کر کے محض ایک نمائشی گورنر جنرل میں تبدیل کرنا چاہتی ہے تو غلام محمد نے پہلے وار کرتے ہوئے 24اکتوبر54ءکو اسمبلی ہی توڑ دی اور وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کو نئی حکومت کی تشکیل تک قائم مقام وزیراعظم میں تبدیل کردیا۔بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق برطرف اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین روپوش ہوگئے اور پھر اچانک برقعہ میں چھپ کر سندھ چیف کورٹ میں چیف جسٹس کانسٹنٹائین کے سامنے گورنر جنرل کے فیصلے کو چیلنج کردیا۔مولوی تمیز الدین نے اس مقدمے کے لیے برطانوی وکیل ڈی این پرٹ کی خدمات حاصل کیں۔جنہیں حکومت نے گرفتار کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔بحرحال جسٹس کانسٹنٹائین کی عدالت نے گورنر جنرل غلام محمد کے اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔حکومت نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس محمد منیر کی عدالت میں اپیل دائر کردی۔مولوی تمیز الدین کے پاس مسٹر پرٹ کو سپریم کورٹ میں مقدمے کی فیس دینے کے پیسے نہیں تھے ۔برطرف اسمبلی کے کسی ممبر نے بھی غلام محمد کے ڈر سے مولوی تمیز الدین کا مالی و اخلاقی ساتھ دینے سے گریز کیا۔چنانچہ مسٹر پرٹ نے ازراہ عنایت یہ مقدمہ بغیر فیس کے لڑا۔جسٹس منیر نے سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ بدل دیا اور گورنر جنرل کی جانب سے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو جائز قرار دے دیا۔اس فیصلے پر عدالتی و سیاسی حلقوں میں خاصی تنقید ہوئی لیکن گورنر جنرل کی دلیل تھی کہ یہ فیصلہ عدالت عالیہ نے کیا ہے اس لیے ہم سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ستمبر77ءمیں بیگم نصرت بھٹو نے جنرل ضیاءالحق کے اقتدار سنبھالنے کے اقدام کو چیلنج کیا۔چیف جسٹس انوار الحق کی سپریم کورٹ نے حکومتی وکیل شریف الدین پیرزادہ کی یہ دلیل قبول کرلی کہ آئین معطل کیا گیا ہے منسوخ نہیں کیا گیا اس لیے ملک کو دوبارہ آئینی پٹڑی پر چڑھانے کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت جنرل ضیاءالحق کو آئین میں ضروری ترامیم کی اجازت دی جائے ۔یوں عدالت نے جنرل ضیا الحق کے اقتدار سنبھالنے کے عمل کو جائز قرار دے دیا ‘اس فیصلے پر بھی خاصی تنقید ہوئی لیکن جنرل ضیا الحق نے کہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے جس کا احترام ہم سب پر لازم ہے۔مارچ79ءمیں چیف جسٹس انوارالحق کی سپریم کورٹ نے 3 کے مقابلے میں 4کی اکثریت سے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مولوی مشتاق حسین کا یہ فیصلہ برقرار رکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مجرم ہیں اس لیے انہیں سزائے موت دی جاتی ہے ۔پیپلز پارٹی اور اکثر عالمی ماہرین قانون نے اس فیصلے کو بھٹو کا عدالتی قتل قرار دیا لیکن جنرل ضیا الحق کا اصرار تھا کہ یہ فیصلہ انہوں نے نہیں بلکہ اعلیٰ ترین عدالت نے کیا ہے لہٰذا فیصلے کا احترام ضروری ہے ۔2000ءمیں چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں جنرل پرویز مشرف کو اجازت دی کہ وہ ملک میں جمہوری عمل کو بحال کرنے کے لیے آئین میں ضروری ترامیم کرسکتے ہیں۔یوں عدالت نے جنرل پرویزمشرف کے اقتدار سنبھالنے کے عمل کو آئینی چھتری فراہم کردی۔جنرل پرویزمشرف کا اس فیصلے پر تنقید کرنے والوں کے لیے یہی جواب تھا کہ ہم سب کو سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش دلی سے تسلیم کرلینا چاہیے ۔25فروری 2009ءکو چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی قائم کردہ3رکنی بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے شریف برادران کی نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا۔صدر آصف علی زرداری نے ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو نصیحت کی کہ یہ اعلیٰ عدالتی فیصلہ ہے اور عدالتی فیصلے پر تنقید اور ایجی ٹیشن کسی کو زیب نہیں دیتا۔صدر زرداری کے اس تاریخی جملے سے اور کچھ ہو یا نہ ہو جسٹس محمد منیر ، جسٹس مولوی مشتاق حسین، جسٹس انوارالحق اور جسٹس ارشاد حسن خان کے فیصلے متنازعہ نہیں رہے ۔یوں مولوی تمیز الدین اور بیگم نصرت بھٹو کے مقدمے اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جو ہوا وہ عین انصاف تھا۔تھینک یو پریذیڈنٹ زردادی ۔۔ ۔۔تھینک یو ویری مچ۔

 

Monday, January 19, 2009

بے وقت کی راگنی : پاکستان بات چیت سے ہی بن گیا تھا؟

بے وقت کی راگنی


Wed, 03 Sep 2008 08:02:00

مان لیجیے، شیخ جو دعویٰ کرے
اک بزرگِ دین کو ہم جھٹلائیں کیا
ہوچکے حالی غزل خوانی کے دن
راگنی بے وقت کی اب گائیں کیا

موجودہ صورتِ حال میں، جب کہ پاکستان کے ایک حادثاتی رہنما، جناب آصف زرداری،  صدر پاکستان کے عہدہ  ء عالیہ پر براجمان ہونے جارہے ہیں،  عقل گنگ ہے کہ یہ کیسا منظر نامہ ترتیب پا گیا ہے۔  تمام آزادانہ کام کرنے والے صحافتی ادارے ان کے  اثاثہ جات کے بارے میں ہوش ربا، اور طلسمِ سامری جیسی رپورٹیں شائع کررہے ہیں۔ یہ امر روز روشن کی طرح یقینی ہے کہ اگر یہ تمام اثاثے ، جن کی مالیت ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے، واقعی زرداری اور بھٹوخاندان کی میراث کے زمرہ میں ہیں، تو اس قدر بڑی رقمیں تو کسی بھی دیانت دار پاکستانی کی قسمت میں نہیں۔ 
خود ہمارے تازہ تازہ' سابق' ہوئے صدر صاحب پریشان ہیں کہ وہ کس طرح اپنی زندگی ٹھاٹ باٹ ، اور سیر وسفر میں گزاریں گے!  وہ  پاکستانی زرداروں میں ہری جن Child of God  سے زیادہ نہیں لگتے۔  ہم اپنے کم عمر، اور کم مطالعہ، قارئین کو یہ واضح کردیں کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جو طبقاتی نظام ہے، اس میں برہمن سب سے اوپر، اور دلِت سب سے نچلے  درجہ پر سمجھے جاتے ہیں۔  ہندوستانی رہنماآنجہانی موہن داس کرم چند گاندھی نے دلتوں کو ''خدا کے بچوں'' کا لقب دے دیا تھا، جو عیسائی تعلیمات سے زیادہ قریب، اور مغرب کے لیے زیادہ دل کش نعرہ ہے۔ یہ خدا کے بچے اپنی تمام ضرورتوں کے لیے خدا کے ہی محتاج ہیں، کیونکہ بھارتی متعصب معاشرہ ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھتا ہے۔ آپ یہ جان کر شاید حیران ہوں گے کہ حالیہ مون سون کے سیلابوں میں کی جانے والی امدادی کارروائیوں میں بھی یہی طبقاتی نظام کارفرما رہا، اور بے چارے مسکین ہری جنوں کی بستیوں کو امدادی کشتیاں اور سازوسامان فراہم نہیں کیا گیا، اور انہیں سیلابی موجوں کے تھپیڑے کھانے پر مجبور کردیا گیا۔
آپ میں سے جو دو چار ذہین قاری ہیں، وہ یقینا یہ سوال کریں گے کہ ہم نے بھارتی طبقاتی نظام کا موضوع کیوں چھیڑ دیا!  تو پیارے دوستو، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اور آپ اس آزادی کا شکر ادا کریں جوہمیں ہندو بالا دستی سے فی الوقت نجات دلائے ہوئے ہے۔ اور وقتاْ فوقتاْ اپنے قومی آزادی کے سفر کی یادیں تازہ کرتے رہیں، اور ان عظیم رہنمائوں کی زندگی کو اپنے کردار کے لیے ایک سانچہ بنانے کی کوشش کریں، جن کی ذہانت ، فراست، تدبر، اور رہنمائی کی بناء پر آج ہم ایک آزاد پاکستان کی فضائوں میں سانس لے سکتے ہیں۔ ورنہ خاکم بدہن، ہم اور آپ بھی 'خدا کے بچے' بنے ہوتے۔  
اس امر کی نشاندہی کرنے کے لیے ہم اس لیے بھی بے چین تھے کہ گزشتہ دنوں، جب جناب آصف زرداری صاحب نے تمام پاکستانی دوردرشنوں کو ایک جیسا ہی انٹرویو دیا تھا، جن میں بہترین فٹنگ کے نئے نئے سوٹ البتہ مختلف تھے، انہوں نے ایک سوال کے جواب میں  فرمایا تھا کہ ہم تو بات چیت پر ہی یقین رکھتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح قائد اعظم نے پاکستان صرف بات چیت Dialogue  کے ذریعہ بنا لیا تھا۔  اگرچہ ان کا یہ جواب قائد اعظم کی صلاحیتوں کو خراجِ تحسین پیش کررہا تھا، مگر اس سرسری سے بیان سے یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ انہیں تحریکِ پاکستان کے بارے میں مکمل اور ضروری تاریخی معلومات شاید حاصل نہیں، یا پھر وہ اسے بھول گئے تھے، کم ازکم اپنے انٹرویوز کے وقت۔ 
پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز ہونے کے خواہشمند پاکستانی کے لیے یہ ایک مثالی صورتِ حال نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ جلد از جلد تحریکِ پاکستان کے بارے میں ایک  'حادثاتی کورس' Crash Course کرلیں۔ تاکہ وہ سرسید احمد خان، علامہ اقبال، چوہدری رحمت علی، مولانا محمد علی جوہر،  قائد اعظم محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خاں کی جدوجہد، اور مسلم لیگ کے قیام، اور دیگر تاریخی حقائق جان لیں، جن میں لاکھوں مسلمانوں کی بے لوث قربانیاں شامل ہیں۔ وہ مسلمان، جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ 1947 میں قائم ہونے والے پاکستان میں منتقل نہ ہوسکیں گے،  صرف اسلام کے نام پر اپنی جانیں، مال وآن قربان کرگئے۔ یہ ان کا عطیہ کیا ہوا لہو ہی ہے، جو آج بھی پاکستان کی رگوں میں دوڑ رہا، اور اسے زندگی عطا کیے ہوئے ہے۔ اگر آج بھی قربانی اور خدمت کا وہی جذبہ ہو تو پاکستان دنیا میں اپنا کھویا ہواباوقار مقام پھر حاصل کرسکتا ہے۔ 
اسی طرح ہمارے نامی وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی صاحب نے بھی حال ہی میں اپنے ایک بیان میں یہ فرمایا ہے کہ اگر قائدِ اعظم بیک وقت مسلم لیگ کے صدر اور گورنر جنرل بھی ہوسکتے ہیں، تو جناب آصف زرداری بھی بیک بینی اور دو گوش اپنی سیاسی پارٹی کے چیف، اور صدرِ پاکستان کیوں نہیں ہوسکتے؟ ہمارا بھی وہی خیال ہے جو آپ کا ہوگا۔۔۔۔۔ کہاں قائد اعظم، اور کہاں  ہمارے موجودہ رہنما۔ بہتر ہوگا کہ وہ اس قسم کے موازنے کرنے کی کوششیں نہ کیا کریں۔  تعلیم، عمل، کردار، امانت، دیانت، عمیق مطالعہ، قانون پر گرفت، مستقبل پر ایک صاف اور واضح نظر، یہ سب وہ  صفات ہیں جن پر آج کا کوئی بھی پاکستانی لیڈر پورا نہیں اترتا۔ ایک لبنانی عرب امریکی لکھاری پیرے ٹرسٹام نے ایک مقبول امریکی ویب سائٹ About.com پر ایک نہایت ہی پرمغز مقالہ پاکستان کی موجودہ صورتِ حال پر تحریر کیا ہے۔ وہ پاکستانیوں پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ساڑھے سولہ کروڑ کی آبادی میں سے ایک بھی صاف و شفاف رہنما اس قوم کو دست یاب نہ ہوسکا، اور پاکستانی صدارت بھی خورد برد کا شکار ہوگئی۔   بہتر یہ ہوگا کہ تمام تینوں کے تینوں صدارتی امیدوار  کھلے عام دور درشنوں پر آکر پاکستانی مسائل پر بحث و مباحثہ  کریں، اور اپنے اپنے وژن اور منصوبہ بندی سے عوام کو آگاہ کریں۔ جب امریکی ایسا کرسکتے ہیں تو پاکستانی کیوں نہیں؟ 
رہنمائوں کی بات کرتے ہوئے،  یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ بلوچستان میں جب کچھ عرصہ قبل ایک ساتھ پانچ خواتین کو زخمی کرکے زندہ ہی دفنادیا گیا، تو یہ خبر کسی بھی پاکستانی صحافی یا اخبار نے نہ پائی۔ یہ تو ہانگ کانگ کے ایک انسانی حقوق کا ایک ادارہ تھا جس نے یہ وحشت ناک خبر تمام دنیا کو سنائی۔ پھر ہم بھی اسے راز میں نہ رکھ سکے۔ ان زخمو ں پر نمک چھڑکتے ہوئے ہمارے سینیٹ میں تخت نشین بلوچی رہنمائوں نے جو ابتدائی بیانات دیئے وہ عذر گناہ، بد تر از گناہ ہیں۔  مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے ایسے اشخاص، قرآن الکریم کی سورہ ء نور کی ابتدائی آیات کا مطالعہ کرلیں، اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر توبہ کریں، اور انصاف کی فراہمی کے لیے کام کریں تو ان کی عاقبت سدھر سکتی ہے۔ بہر حال، ایسے رہنمائوں سے اللہ پاکستان کو محفوظ رکھے، اس قسم کے ذہنی مریض افراد کی عدل کے ایوانوں میں موجودگی پاکستان کے لیے ہمیشہ سوہانِ روح رہے گی۔ ہماری مذہبی جماعتوں کا اس معاملہ پر خاطر خواہ اقدامات نہ اٹھانا بڑا معنی خیز ہے۔ کراچی میں لاشوں کی سیاست کرنے والے ذرا بلوچستان میں بھی تو نمازِ جنازہ پڑھانے کی ہمت کریں۔
پیارے قارئین، اگر یہ تحریر آپ کو بے وقت کی راگنی محسوس ہورہی ہے تو اس میں آپ کا چنداں قصور نہیں۔  بین الاقوامی ریشہ دوانیوں کے سازوں کی آواز و جھنکار اس وقت اس قدر بلند ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ امریکہ اور برطانیہ نے اپنی مرضی کے پاکستانی رہنمائوں کا انتخاب کیوں کیا، اور وہ ایسے کون سے کام ہیں جو محترمہ بے نظیربھٹوزرداری شہید، اور جناب سابق صدر سے نہیں نکلوائے جاسکتے تھے۔ غور کیجیے، اور سر دھنیے، اس کے سوا  پاکستانی کر بھی کیا سکتے ہیں۔
چلتے، چلتے، ہم جناب ظریف لکھنوی کے چندمزے دار اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، جو  صدارتی انتخابات کے موقع پر پاکستانی سیاست  کے ایک مخصوص طبقہ کی لوٹا بازی  اور مفاد پرستی کی دل چسپ عکاّسی کرتا ہے:۔۔

ووٹ دوں گا عوض میں آپ کو خمسین *کے
اتنے ہی ملتے ہیں مجھ کو وعظ کے، تلقین کے
حضرتِ والا تو خود پابند ہیں آئین کے
اس سے کم لینا مرادف ہے مری توہین کے
ہاں یہ ممکن ہے کہ کچھ تقلیل فرمادیجیے
ہے یہ کارِ خیر، بس تعجیل فرمادیجیے

 * خمسین = 50 


Aablon per Hina آبلوں پر حنا

آبلوں پر حنا


Sat, 20 Sep 2008 08:01:00

غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
اہل تدبیر کی واماندگیاں
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں
(مرزا  اسد اللہ خاں غالب       (1797-1869)

آپ سب نے اس ہفتہ کئی ہولناک، دل چسپ ، اور حیران کن خبریں اور بیانا ت پڑھے،  سنے ہوں گے۔ مثلاً،  پاکستانی صدر محترم ایک نیم رسمی، اور نیم ذاتی سے دورہ پر لندن تشریف لے گئے۔ وہاں انہوں نے برطانویوں سے بات چیت کی، اور اس کے بعد وہ لندن میں مقیم جلاوطن پاکستانی سیاست داں جناب الطاف حسین صاحب سے بھی ملے۔ اس کے بعد وہ اپنی بیٹی کو  ایک ہوائی جہاز چارٹر کرکے اس کے اسکول گئے، اور وہاں اس کو بنفسِ نفیس داخل کرادیا۔ اس سے پاکستانی بچّوں کی یقینا بڑی حوصلہ افزائی ہوئی، اور انہیں بھی اپنے اسکول جانے کے لیے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا خواب دیکھنے کا موقع مل گیا۔  اسلام آباد میں امریکیوں نے آکر پاکستانیوں کو یقین دلایا کہ وہ پاکستانی سرحدوں کا احترام کریں گے، اور میزائل وغیرہ اِدھر اُدھر چلا کر خوشی کا اظہار نہیں کریں گے۔ مگر اس خوبصورت بیان کے چند گھنٹوں ہی کے بعد اس کے بارے میں خوشی منانے کے لیے انہوں نے پھر میزائل اور بم پاکستان کی سرزمین پر پھاڑناشروع کردیے۔  محسوس ہوتا ہے کہ امریکیوں کو بھی وہی دماغی بیماری لاحق ہوگئی ہے، جس کا چرچا ہمارے صدر کے بارے میں ان کے دشمنوں نے دل کھول کر ان کے صدارتی انتخاب کے موقع پر کیا تھا ۔۔۔۔  یعنی بھول جانے کی۔
اس سے پہلے کہ ہم امریکیوں کے جذبات، احساسات، اور روّیوں کے بارے میں بات چیت کریں، سب سے پہلے  اس دل چسپ معاملہ  کے بارے میں بحث کرلیں، جو کہ جناب صدر پاکستان کے اپنی جیب خاص سے ایک طیارہ لندن سے ایڈنبرا چارٹر کرنے سے متعلق ہے۔  صدر صاحب کے دیرینہ دوست و خادم، جناب واجد شمس الحسن صاحب، موجودہ  پاکستانی ہائی کمشنر، لندن، فرمارہے ہیں کہ جناب صدر صاحب نے اخراجات میں کٹوتی کرکے ملک و قوم کی بڑی خدمت کی۔ نہ تو انہوں نے ہوٹل سے کھانا کھایا، اور نہ ہی طیارہ چارٹر کرنے کے پیسے ملک و قوم سے مانگے۔ اب اس ضمن میں چند سوالات ابھرتے ہیں، جن کے بارے میں امید ہے کہ جناب صدر صاحب کسی وقت خود ہی جوابات قوم کے سامنے رکھ دیں گے۔ ایک تو یہ کہ وہ خود اپنے بیانات اور عزم کے مطابق سب سے پہلے پاکستان کے ایک سچے اور دیرینہ دوست ملک چین جانے والے تھے۔ ایسا کیا ہوا کہ وہ اچانک لندن جا پہنچے!  ان کی برطانویوں سے ملاقاتوں کا کوئی خاص نتیجہ تو سامنے آیا نہیں۔۔۔ بس نشستند، گفتند، برخاستند قسم کی ایک ملاقات رہی۔ خود امریکیوں اور برطانویوں کے پرنالے تواب بھی پاکستانی سرزمین پر ہی بہہ رہے ہیں۔ جن میں ان کی بربریت کے نشان کے طور پر پاکستانی خون دھڑا دھڑ بہہ رہا ہے۔ نیٹو امریکی پالیسیوں کے بارے میں پہلے ہی بیان دے چکا تھا کہ وہ ان سے فی الحال متفق نہیں ہے۔ تاہم یہ اتفاق کسی وقت بھی وقوع پذیر ہوسکتا ہے۔ ناٹو کی امریکہ کے مقابلہ میں پاکستان کو اہمیت دینا چہ معنی دارد؟ چلیں، اگر جناب صدر کی بیٹی کے اسکول کا معاملہ نہ ہوتا تو کیا وہ پہلے چین ہی نہ جاتے؟ وہ چین ہوتے ہوئے بھی برطانیہ جاسکتے تھے۔  اب جہاں تک چارٹرڈ ہوائی جہاز کا معاملہ ہے تو جناب صدر قوم کو بتادیں کہ اس میں کس قدر خرچ ہوا،کس بنک حساب سے ادا کیا گیا،  اور جناب صدر اور ان کے اہل خاندان کے پاس اس وقت ملکی و غیرملکی ذرائع سے حاصل ہونے والا کس قدر مال و دولت موجودہے۔ یعنی کہ وہ سب اپنے  اپنے اثاثہ جات ، آمدنی و خرچ کے گوشوارے ملک و قوم کے سامنے پیش کردیں۔ اس سے ایک ایسی مثال قائم ہوجائے گی جو تمام پاکستانی قوم کے لیے ہمیشہ ایک مشعل راہ بنی رہے گی۔ چونکہ جناب صدر اور ان کے اہل خاندان یہ بتا ہی چکے ہیں کہ ان کے تمام اثاثہ جات وغیرہ جائز طور طریقوں سے حاصل کردہ ہیں، چنانچہ انہیں اس ضمن میں کسی بھی دشواری کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
اب ہم دوسری جانب دیکھتے ہیں کہ ہمارے جمہوریت کے لبادہ میں ملبوس سیاسی رہنما پاکستانی سالمیت، عزت و عظمت کے قلعہ پر امریکی یلغار کے بارے میں کیا، کیا کہہ رہے اور سوچ رہے ہیں؟  ہمارے وزیر خارجہ، وزیردفاع، اور یہاں تک کہ وزیراعظم بھی قوم کو ایک مایوسانہ تصویر دکھاکر ڈرا رہے ہیں۔ اگرچہ اس تصویر اور تصوّرمیں خاصی سچائی بھی ہے، مگر قوم کا حوصلہ بڑھانا ایک اور امر ہے، اور اسے بونا بنانا کچھ اور  رنگ اورپہلو رکھتا ہے۔   اس وقت تو اہل تدبیر،  اور تمام حکومتی بیانات سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ان کے پاس پاکستان مخالف مذموم امریکی اور مغربی منصوبوں سے نمٹنے کے لیے کوئی بھی واضح حکمتِ عملی نہیں۔ ہاں پیروں کے آبلوں پر حنا بندی اپنے بیانات سے ضرور کررہے ہیں، تاکہ جو کچھ بھی دفاعی چلت پھرت ممکن ہے اسے بھی بریک لگ جائے۔  جو کچھ بھی پاکستانی پلّے میں ہے، وہ صرف یہ ہے کہ سر جھکا کرامریکی مطالبات اور دھمکیوں سے خوف زدہ رہا جائے، اور وہی خوف پاکستانیوں کی نفسیات میں اس حد تک داخل کردیا جائے کہ وہ ہر امریکی ظلم و بربریت کوبلا چوں و چرا سہے جائیں۔ اسی نفسیات کے سبب کوئی بھی پاکستانی امریکی کھانوں،  خدمات، اور اشیاء صرف وغیرہ کا بائی کاٹ کرنے کا نہیں سوچ رہا، جب کہ ڈنمارک کے خلاف اس قسم کی ایک کمزور سی تحریک چلی ضرور تھی۔ امریکی منصوبہ سازوں کی جانب سے پراپیگنڈہ جنگ میں ہمارے دیوزاد ٹی وی چینلز ایک متنازعہ سا کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ امریکی جرائد میں شائع ہونے والی ہر خبر اور تجزیہ کو خوب اچھال کر، اور ان کی کاٹ نہ کرکے، امریکی منصوبوں میں نادانستہ، یا شاید دانستہ بھی، شریک ہورہے ہیں۔ پاکستانی تجزیہ کاروں کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام پاکستان مخالف پراپیگنڈہ کے بارے میں منطقی دلائل پیش کیا کریں اور یہ معاملہ یک طرفہ نہ رہے۔ پاکستانی فوج کو بھی چاہیے کہ وہ قوم کو، پارلیمنٹ کے ذریعہ، یہ بتائے کہ اس نے پاکستان دشمن غیرملکی عناصر، غیرملکی افواج، سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی بنا رکھی ہے۔ اس کے خفیہ پہلو برسرعام نہ لائے جائیں، مگر قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ بھارت، افغانستان، امریکہ، نیٹو،ا ور اسرائیل کے مشترکہ پاکستان مخالف حملوں کی صورت میں کیا کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا پاکستانی قوم ذہنی طور پر اپنے دفاع کے لیے اقدامات شروع کردے! اور وہ اقدامات کیا ہوں  گے۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پاکستانی قوم اس نازک مرحلہ کے بارے میں جذباتی ضرور ہو، مگر تمام فیصلے ایک ٹھنڈے دل سے ہی کرے۔  موجودہ دور میں جب کہ ہر مغربی فوجی سیٹیلائٹ  اور انٹرنیٹ کمیونیکیشن، سیٹیلائٹ کی آنکھوں، جسم کی حفاظت کرنے والی مخصوص وردی، بکتر بند گاڑیوں،  برق رفتار اور تباہ کن ہوائی جہازوں کی مدد، فضائی نگرانی کے طیاروںاور  برقی آلات اورفوجی کمپیوٹروں کو جام کرنے، ٹیلی فونوں کو سننے اور ای میلوں کو دیکھنے کے نظاموں، اور  وسیع پیمانہ پر تباہی پھیلانے والے بم اور میزایئلوں، اور پاکستان کے چپہ چپہ پر اپنے ایجنٹوں کی موجودگی سے لیس ہے، تو پاکستانی افواج بے سروسامانی کی کیفیت میں ان سے کس طرح نبرد آزما ہوسکتی ہیں! ہاں وہ اپنے ملک و قوم پر ایک ''اندھا دھند لڑائی'' میں اپنی جان ضرور قربان کرسکتی ہیں، مگر اس قربانی کا  مثبت یا مطلوبہ نتیجہ برآمد نہ ہوگا۔  پاکستان، چونکہ دہشت کے خلاف نام نہاد جنگ میں اب تک امریکہ اور مغرب کا ساتھ دیتا رہا ہے، یقینا اس کے لیے ایک فوری ابائوٹ ٹرن لینا  اور واپسی آسان قدم نہیں۔ مگر وہ اس ضمن میں اپنی پیش قدمی، مارچ، کو ایک ٹھہرائو کی صورت میں ضرور لاسکتا ہے۔  اگر واقعی کوئی پاکستان مخالف غیرملکی طبقہ قبائلی علاقوں میں اب تک باقی اور موجو د ہے تو انہیں نکال باہر کرنا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بارے میں پاکستان کو کس حد تک امریکی امداد و تعاون کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان سٹھیانے کی عمر کو پہنچ کر بھی اپنی فوجی استعداد کو اس سطح پر نہیں لاسکا ہے جہاں کہ وہ اپنی حدود میں دراندازوں سے نمٹ سکے تو قوم یہ سوال کرنے میں قطعی حق بجانب ہوگی کہ وہ ایک بہترین استعداد کار رکھنے والی  چہار جانب سے گھیرائو کرلینے والی مشترکہ دشمن فوج سے کس طرح لڑ سکے گا!  ان تمام سوالات اور حقائق کو پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاسوں میں فوری طور پر اٹھایا جائے، اور ہمارے ان دانش وروں اور ناکام سیاسی رہنمائوں کو سمجھایا جائے جو امریکیوں کو دنداں شکن جوابات دینے کی رائے رکھتے ہیں کہ اس طرح پاکستان کو کیا نقصانات پہنچ سکتے ہیں، اور کیا پاکستانی قوم اس ضمن میں درکار قربانیوں کے لیے  ویٹ نامیوں، اور لبنانیوں کی طرح تیار ہے؟ پھر ایک واضح اور منظور شدہ حکمت عملی پر عمل کیا جائے۔ اس میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی آبرومندانہ واپسی، پاکستان مخالف قوتوں کی سپلائی اور ترسیلات میں رکاوٹیں کھڑی کرنا(مثلاً سامان لے جانے والے ٹرکوں کی جانچ پڑتال، ان کی رفتار اور کاغذات وغیرہ کی جانچ میں مطلوبہ وقت کا خرچ، اور اسی قسم کی دیگر سرخ ٹیپی کارروائیاں ، جن سے پاکستانی ناراضگی کابھی اظہار ہوجائے، اور معاملہ بھی ہاتھ سے نہ نکلے)، ملک و قوم کو قربانیوں اور سخت اوقات کے لیے تیار کرنا شامل ہیں۔ بھارت نے ہمیں طویل مدتی جھوٹے مذاکرات میں الجھا کر کشمیر سے آنے والے پانیوں کو روک لیا ہے، اور امریکی ایٹمی معاہدہ میں کامیابی حاصل کرکے اب وہ امریکی احسانات کا بدلہ چکانے کو تیار ہے۔ پاکستان کو تنہا کرکے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس پاکستانیوں کو کھلا چیلنچ دے چکے ہیں کہ وہ اپنی کارروائیاں پاکستانی حدود میں جاری رکھیں گے، اور وہ ایسا کرنے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں کیونکہ افغانستان میں امریکیوں کی جانیں بچانے کا ان کے نزدیک صرف یہ ہی ایک طریقہ ہے۔ پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ بھی پاک افغان سرحدپر اپنے بلا پائلٹ ہوائی جہاز اڑانا اور سرحدوں کی نگرانی کرنا شروع کردے۔ اس میں امریکی افواج اور دہشت گردوں، دونوں کی نگرانی اور سرکوبی کرنے کا مقصد پیش نظر ہو۔ جہاں تک امریکیوں اور مغربی اتحادیوں کی جانیں بچانے کا معاملہ ہے تو وہ افغانستان کو افغانیوں کے حوالہِ کرکے اپنے اپنے ممالک میں واپس جاکر خوش و خرم زندگی بسرکرسکتے ہیں۔ 
فی الحال پاکستان کو اپنا معاملہ فوری طور پر ہر موجود بین الاقوامی فورم پر اٹھانا چاہیے، اور یہ ایک حیران کن امر ہے کہ اسلامی کانفرنس کے ممالک اور کرتا دھرتائوں پر بھی ایک خاموشی طاری ہے۔ یا تو وہ اس خطرے کو سمجھنے سے قاصر ہیں جو واحد اسلامی ایٹمی قوت کو للکار رہا ہے، یا وہ بھی پاکستانیوں ہی کی طرح شدید خوف زدہ ہیں۔ پاکستان اپنے دفاع کے لیے اس وقت ہر قسم کی تیاری کا حق رکھتا ہے، اور اسے اپنے ایٹمی پروگرام کو بھی فوری طور پر غیرمنجمد کرکے د وست نما دشمن افواج کے ہتھیاروں کے توڑ میں تجربات کرنے شروع کردینے چاہیئیں۔ پاکستانی جیٹ انجن ہر صورت میں تیار کیے جائیں اور امریکی   F-16 طیاروں کو بھول کر امریکی جال سے نکل آنا چاہیے،  امریکہ سے تعلقات کو نسبتاً کم تر درجہ پر لے آنا چاہیے، اور ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ پاکستانی وقار کے علم بردار ہمارے وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کے ساتھ امریکیوں نے گزشتہ رسمی دورہ میں کس قسم کا سلوک روا رکھا تھا۔  کم از کم اس امریکی مثال کی تقلید ہی کی جائے اور امریکی سفیرہ  اور سفارت کاروںکی پاکستان میں آزادانہ آمد ورفت اور بلا روک ٹوک سیاسی ملاقاتوں پر فوری پابندی لگا دی جائے۔ وہ اپنا تمام رسمی کام وزارتِ خارجہ کے توسط سے سرانجام دیں، اور ہر وہ سیاستدان جو امریکی سفارت کاروں سے  بلا اجازت ملے،  اس کا مواخذہ شروع کردیا جائے۔ اب جب کہ صدرِ پاکستان امریکہ اور اقوام متحدہ کے دورہ پر جانے والے ہیں،  سفارتی پروٹوکول ، حفظ مراتب، کے ایک ایک قدم اور باریکیوں کو پہلے سے ہی مدنظر رکھ کر سفری منصوبہ بندی اور انتظامات کیے جائیں، جن میں استقبال، امیگریشن، ٹرانسپورٹ، پریس کانفرنسوں میں بات چیت کے مواقع، رہائش، کھانا پینا،  پاکستانی فوجی کمانڈو گارڈاور حفاظتی اقدامات ، صرف ترجمان کے ذریعہ گفتگو، اور پہلے سے منظور شدہ صحافیوں کی بارات وغیرہ سب ہی امور شامل ہوں۔ غرضیکہ کوئی بھی ناپسندیدہ ماضی میں پیش آنے والا واقعہ کسی صورت دہرایا نہ جائے۔ اگر کسی وجہ سے ایسے امور پر اختلاف ہوجائے تو یہ دورہ ہی منسوخ کردیا جائے۔ بہتر یہ ہوگا کہ امریکہ جاتے ہوئے اپنے سچے چینی دوستوں سے مشاورت کرتے جائیں، اور اس بارے میں کسی بھی خوف اور وہم کا شکار نہ ہوں۔  
فی الحال تو پاکستانی قوم کا یہی حال ہے جس کی طرف مرزا غالب پہلے ہی اشارہ کرگئے ہیں:۔۔

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے، اے خدا!۔۔
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

Good News on Kashmir -- کشمیر پر خوش خبری

Zardari says "good news" on Kashmir soon

Wednesday, Sep 10, 2008

Nirupama Subramanian

ISLAMABAD: Asif Ali Zardari, who was sworn in as President of Pakistan on Tuesday, declared hours after his inauguration that there would be "good news" on Kashmir soon and that he intended to work "with all our neighbours" to tackle the problems faced by the region.

From Bushism to Aasifiyaath بش ازم سے آصفیات تک

بش ازم سے آصفیات تک


Mon, 29 Sep 2008 21:24:0

جب نومنتخب صدرپاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس عام کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی اہم بین الاقوامی رہنماؤں سے ملاقات کی تو پاکستانی قوم یہ توقعات لگائے بیٹھی تھی کہ وہ اس موقع پر پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقدمہ مکمل سنجیدگی سے لڑیں گے، اور اس اہم اجلاس کے موقع پر اپنے خطاب سے بھی بقول شخصے سامعین پر چھا جائیں گے۔ تاہم افسوس کہ یہ امیدیں پوری نہ ہوسکیں۔ ان کی باتوں سے یہ محسوس ہوا کہ جناب صدر محترم ابھی تک اپنے ذاتی صدمات میں محصور، اور حادثاتی اڑان ہی بھر رہے ہیں۔
اڑان کے ذکر سے ہمیں یاد آیا کہ عربوں میں ایک لطیفہ خاصہ مقبول ہے۔ آپ کو بھی سنائے دیتے ہیں۔ ایک شخص ایک لائبریری میں داخل ہوا، جو شاید کسی سول ایوی ایشن کے دفتر کی، اور ائیرپورٹ کے قریب تھی۔ وہاں اس نے ادھر، اُدھر دیکھ کر ایک کتاب اٹھالی، جس کا عنوان تھا، جہاز کس طرح اڑائیں! وہ کتاب باتصویر، رنگین، اور قدم بقدم ہدایات سے مزین تھی۔ اس نے آؤ دیکھا، نہ تاؤ، اور چپکے سے وہ کتاب بغل میں دبائی اور ایک ہوائی جہاز میں سوار ہوگیا۔ اس کے کل پرزوں سے کچھ چھیڑچھاڑ کی، کچھ کتابی ہدایات پر عمل کیا، خدا کا کرنا، وہ جہاز ہوا میں بلند ہوگیا۔ اور کسی نہ کسی طرح ڈولتا، ڈالتا، وہ اڑنے لگا۔ جلدہی ان نئے نویلے پائلٹ صاحب کو زمین کی یاد ستانے لگی، اور انہوں نے کتاب میں جہاز اتارنے کی ہدایات تلاش کرنا شروع کردیں۔ اس کتاب کے آخری صفحہ پر تحریر تھا، مبارک ہو، اب آپ جہاز اڑانا سیکھ گئے۔ اب اسے اتارنے کے طریقوں کے بارے میں کتاب کا دوسر ا حصہ ملاحظہ کریں۔
کہا جاتا ہے کہ جب روم میں ہوتو ویسا ہی کرو، جیسا کہ رومی کرتے ہیں، یعنی کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔ اس مقولہ پر عمل کرتے ہوئے ہمارے کچھ پاکستانی بھائی (اور شاید کچھ بہنیں بھی) کھَل کھیلتے ہیں، اور اسلامی اور پاکستانی اخلاقی اقدار کو پچھلی جیب یاپرس میں ڈال کر، ملحدانہ اورکافرانہ اقدار کو اپنا لیتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ شراب نوشی، اور جنسِ مخالف سے دوستی کے وہ درجات ہیں جن پر فائز ہونا کچھ پاکستانیوں کے لیے باعثِ فخر ہوتا ہے۔ ساقی فاروقی کی پاپ بیتی ، یا اخترممونکا کی پیرس( چند) کلومیٹر، وغیرہ پڑھ ڈالیں، آپ کا دماغ روشن نہ ہوجائے توکہیے گا۔ یقیناً ایسی کئی کتابیں اور بھی ہوں گی ، جن میں اس قسم کے ناقابل فخر کارناموں کے تذکرے بھرے پڑے ہیں۔ جب کہ ان کے مقابلہ میں سچے پاکستانیوں کے سفرنامے بھی موجود ہیں، مثلاً فخر پاکستان، جناب جمیل الدین عالی صاحب کے، دنیا میرے آگے، تماشہ میرے آگے، جناب ابن انشاء مرحوم کا سفرنامہ چلتے ہو تو چین کو چلیے، وغیرہ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے صدر محترم کا ایک امریکی حسینہ کے حسن و جمال کی تعریف کرنا ، اور اس کے گلے پڑنے کی خواہش کا معصومانہ اظہارامریکی ثقافت کے لحاظ سے، اور ہماری اپنی ثقافت کے حساب سے کیسا رہا۔ پاکستانیوں کے لیے ہر مغربی خاتون، خاص طور پر سفید جلددارن، خاصی دل کشی رکھتی ہے۔ جناب علی سفیان آفاقی نے اپنے کئی سفرناموں میں اس امر کا خاص تذکرہ کیا ہے کہ ان کے بقول، یورپ وغیرہ میں چپہ، چپہ پر ایسی خوب صورت خواتین مل جاتی ہیں، جن کی پاکستان آمد پر بھاری سے بھاری پاکستانی فلمی ہیروئن ہلکی پڑجائے۔ تاہم، اس بارے میں ہمارے استاد محترم، جناب مشتاق یوسفی صاحب کا بھی یہی کہنا ہے کہ برطانیہ وغیرہ میں بدصورت خواتین خال، خال ہی ہوتی ہیں، اور یہ پاکستانیوں کا ہی کارنامہ ہوتا ہے کہ وہ شادی بیاہ کے لیے انہیں ہی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ اب آپ خود ہی ملاحظہ کریں، محترمہ سارہ پیلن، اپنی نوجوانی میں اپنے علاقہ میں ملکہ ء حسن رہ چکی ہیں۔ وہ ایک بھرپورزندگی گزار چکی ہیں، پرمسرت شادی شدہ، پانچ بچوں کی ماں ہیں، اور اب بھی خاندانی مصروفیات کو ترجیح دیتی ہیں۔ خود ان کی ایک بیٹی اپنی قانونی بلوغیت حاصل کرنے سے پہلے ہی حاملہ ہوچکی ہے، اور اب اپنے اس دوست سے منگنی اور شادی کا منصوبہ بنا رہی ہے ، جو اس معاملہ میں ذمہ دار ہے۔ 44 سالہ سارہ پیلن کا حسن نوجوانوں کے لیے تو شاید ماند پڑچلا ہو، مگر آخر خاصے بوڑھے امریکی بھی تو ابھی تک زندہ ہیں، اورگر ان کے ہاتھوں میں جنبش نہیں توکیا، ان کی آنکھوں میں تو دم ہے۔ اور وہی اپنے ووٹ ڈالنے ضرور جاتے ہیں، جب کہ نوجوان امریکی ضروری نہیں کہ اسی سطح تک اپنے ووٹوں کا استعمال کرتے ہوں۔ اسی طرح خاصے عمر رسیدہ پاکستانی بھی ہیں، جو کسی بھی چانس کے نہ ہوتے ہوئے بھی سارہ پیلن کی خوب صورتی سے آنکھیں سینکتے اور تیز کرتے ہیں، اور ان کی موجودگی میں مکمل فدوی کا روپ ڈھال لیتے ہیں۔ ان کے جمال کے سامنے زبانیں لڑکھڑاجاتی ہیں، اور الفاظ گڈمڈ ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہیں آرہا تو آپ خود ہی سارہ پیلن کی تصاویر ملاحظہ کیجیے، اور پاکستانی صدر، اور پاکستانی وزیرہ ء اطلاعات کے بارے میں خبریں دیکھ، اور پڑھ لیں، وہ دونوں ہی سارہ پیلن کے حسن کی تاب نہ لاسکے، گویا کہ مرد تو مرد، عورتیں بھی ان پر مر مٹ رہی ہیں۔ چونکہ اب امریکی مرد اور خواتین خاصی تعداد میں جنس مخالف کے بجائے ہم جنسی کو اپنے لیے بہتر سمجھ رہے ہیں، کسی عورت کا بھی کسی دوسری عورت کے خدوخال کی تعریف کرنا وہاں ایک خاص معنی رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر، حال ہی میں مشہور امریکی کامیڈین خاتون ایلین ڈی جنریس نے اپنی ایک ساتھی خاتون کے ساتھ شادی کرڈالی ہے۔ اسی طور کئی مشہور امریکی مرد بھی اسی قسم کی یک جنسی شادی پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ تذکرہ ہم نے اس لیے کیا کہ، امریکی ثقافت کا موجودہ حال آپ کے سامنے تازہ ہوجائے۔ بہر حال، امریکی خواتین کتنی ہی آزاد خیال کیوں نہ ہوں، عام طور پر وہ بھی جنس مخالف سے سرعام گلے نہیں لگا کرتیں۔ آپ ہالی وڈ کی فلموں کے مناظر کا حوالہ نہ دیں، وہ بھی کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں جیسے کہ پاکستانی فلموں میں بلڈوزر نما ہیروئن کے کھیتوں میں غیرسنسرشدہ رقص، جن کے نتیجہ میں وہ زرعی زمینیں برسوں تک بنجر ہوجایا کرتی ہیں،جن میں یہ رقص فلمائے جاتے ہیں۔
امریکی صدر کا انتخاب لڑنے والے جان مکین، جو قدیم عظیم پارٹی، یعنی ری پبلیکن کے امیدوار ہیں، وہ بھی سارہ پیلن کو اپنی انتخابی مہم کے دوران اکثر گلے لگا کر ان کی صلاحیتوں کی تعریف کرتے رہے۔ وہ خاصے عمر رسیدہ (لگ بھگ 74 برس کے) امریکی ہیں، تاہم ان کی اس حرکت سے دوسروں کو بھی ہلا شیری ملی ہے۔ اور ان کے دل و دماغ میں بھی کچھ، کچھ ہونے لگا ہے۔ یہ امر دل چسپ ہے کہ امریکہ میں دیگر مغربی ممالک کی طرح جنسی ہراسانی کے سخت قوانین موجودہیں۔ دفاتر میں کسی بھی ساتھی خاتون کی خوب صورتی کی تعریف اس کی مرضی کے بغیر کردینا ملازمت سے برخاستگی، اور جیل کی ہوا تک کھلا سکتا ہے۔ مگر سابق صدر بل کلنٹن کی وائٹ ہاؤس کے پردوں کے پیچھے بلیک حرکات نے انہیں خاصہ بے عزّت کیا، اور امریکیوں میں ان امور پر اس قدرکھل کر لے دے ہوئی کہ بچے بھی یہ سب جان کر بالغ نظرہوگئے۔ اور زیادہ وقت نہیں گزرا کہ موجودہ امریکی صدر جارج بش نے یورپ میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر جرمن چانسلر خاتون کے کندھوں پر پیچھے سے آکر اپنے ہاتھ جمادیے۔ اس حرکت کا جرمن چانسلر نے بہت برا مانا، اور وہ وہاں سے اٹھ کر چل دیں۔امریکی میڈیا میں اب سارہ پیلن کے بارے میں یہ رائے بنتی جارہی ہے کہ وہ قومی سطح کی رہنمائی اور بین الاقوامی تعاون و تعلقات کے لیے مطلوبہ علم و مطالعہ نہیں رکھتیں، اورمختلف اہم قومی امور ، مثلاً حالیہ امریکی مالی بحران اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ان کی فکر بہت سطحی سی ہے۔
موجودہ امریکی صدرجارج بش گول مول اور اپنے مطلب کے برعکس بول اٹھنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی اس عادت کو بش ازم کا نام دیا گیا ہے، اور اس پر کتابیں بھی تحریر کی جاچکی ہیں۔ بلا سوچے سمجھے بولنے کی ایسی ہی عادت شاید پاکستانی صدر کو بھی پڑرہی ہے۔ چنانچہ ان کی اس خصوصیت کو آصفیات کا نام دیا جا سکتا ہے۔
جارج بش کی اپنی سمجھ، انگلش کی گرامر اور کمپوزیشن بھی خاصی کمزورہے۔ چنانچہ ہمارے پاکستانی صدر محترم صاحب کو بھی کسی جگہ انگلش میں اپنے خیالات و جذبات کو تحریر کرتے وقت خطا ہوجانے پر قطعی پریشان نہ ہونا چاہیے۔ دشمنوں نے مزارِ قائد پر ان کی حاضری کے وقت رجسٹر پر ریکارڈ کیے جانے والے چند جملے اڑا لیے ہیں۔ مگر ہم تمام تر سنجیدگی سے یہ کہتے ہیں کہ چونکہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، کسی اور زبان میں تحریر کا نہ تو کوئی اثبات ہے، اور نہ ہی اس میں کسی ہجے وغیرہ کی غلطی کوئی معنی رکھتی ہے۔ ہم نے خود اچھے اچھے امریکی اور پاکستانی اخبارات کی رپورٹوں میں ہجوں اور گرامر کی غلطیاں دیکھی ہیں۔ چنانچہ ایسے معاملات کا دفاع کرنا ضروری نہیں، اور قومی زبان کا استعمال اس کا بہترین علاج ہے۔
اسی طرح ہمارے صدر صاحب، بش ازم کی طرح ہرجگہ جمہوریت کازبانی کلامی سہارا لیتے ہیں، جسے آصفیت کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ہر مسئلہ اور سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے (چاہے متذکرہ معاملہ کسی انتقامی کارروائی کا متقاضی ہو یا نہ ہو!) ، جمہوریت ہی سب سے بڑی قوت ہے، کشمیر کا مسئلہ بھی اب عوامی قوت ہی حل کرے گی، الخ۔ مگر پاکستانی عوام پر یہ رمز نہیں کھلتا کہ یہ جمہوریت پائی کہاں جاتی ہے۔ موجودہ رہنما بھی ایک خاندانی وصیت کے سہارے تخت پر براجمان ہیں، نہ کہ کسی ایسے سخت امتحانی جمہوری عمل سے جس سے امریکی رہنما گزرتے ہیں۔ سال بھر تک ایسا بحث و مباحثہ ہوتا ہے، مخالفین کے درمیان، کہ ان کی صلاحیتوں کی تمام تر قلعی کھل جاتی ہے۔ اگرپاکستانی جمہوریت کا گھر پارلیمان ہے تو وہ گھر خالی ہے۔ اور وہ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ، خانہ ء خالی را دیو می گیرد۔خالی گھر پر دیو اور جنات وغیرہ قبضہ کرلیتے ہیں۔ اگر پارلیمانی ایوان اسی طرح اکثر بھائیں، بھائیں کرتا رہا تو پاکستان میں جناتی جمہوریت کا رواج ہوجائے گا۔
اب نئی حکومت کو زمام اقتدار سنبھالے ہوئے خاصہ عرصہ گزرگیا ہے، اور اب ہمارے وزیراعظم، اور جناب صدر محترم کو جہاز اڑانے اور اتارنے کی دونوں کتابوں کو بیک وقت پڑھ کر اپنے قدموں پر کھڑا ہوجانا چاہیے، نا کہ صرف شہید محترمہ کی تصویرکی پوجا کرتے، جمہوری بچہ جمورا بنے رہیں، اور عملی طورپر محترمہ کی پالیسیوں اورحامیوں، اور خیالات کی نفی کرتے رہیں۔ جیسا کہ عدلیہ کی بلا داغ بحالی،سینئرمعزز پارٹی رہنماؤں کی عملی واپسی، پاکستانی سرحدوں کا پرعزم اور بے خوف دفاع، اور اپنے عوام، بشمول قبائلی عوام کے جان ومال کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کرنا ہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ جمہوری ممالک میں ہر بڑی سیاسی پارٹی قومی امور پر اپنے موقف کا کھل کر اظہار کرتی ہے، اور برسراقتدار آتے ہی فوری طور پر اپنی پہلے سے اعلان کردہ نئی پالیسیاں نافذ کردیتی ہے۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ ابھی ہمیں آئے ہوئے دن ہی کتنے گزرے ہیں ۔۔۔۔ ذرا چھری تلے دم تو لے لینے دو، ظالمو۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اب حکومت پارلیمانی نظام کو چلنے دے، اور صدارتی عہدہ کو علامتی ہی رہنے دے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی اپنی شہید رہنما کو اس طرح بہتر طریقہ پر خراج عقیدت پیش کرسکتی ہے کہ وہ بجائے موجودہ سہولیات کے تبدیلی ء نام کے جذباتی اعلانات کے، صرف ٹھوس نئے ترقیاتی منصوبے بناکران کو محترمہ کے نام سے نا صرف منسوب کرے، بلکہ دن رات جدوجہد، محنت کرکے انہیں پایہ ء تکمیل تک بھی پہنچائے۔ کالاباغ ڈیم تعمیر کرکے اسے ضرور ایک بے نظیر ڈیم کا نام دے، پاکستانی عوام کے خشک گلوں کو تر، اور وسیع پیمانہ پر بنجر زمینوں کو سیراب کرکے زرعی اور غذائی اور سماجی انقلاب کی بنیاد رکھ دے( اس ضمن میں سندھیوں اور بلوچیوں کو بھی بالائی پاکستان کے علاقوں میں نوآبادگار کا درجہ دے کر انہیں ویسے ہی نئی نویلی نہری زمینیں الاٹ کی جائیں جیسا کہ اسکندرمرزا اور ایوب خان کے زمانہ میں 1957 میں سندھ میںگدو سکھربیراج بنانے کے وقت کیا گیا تھا، تاکہ اس مرتبہ ان کے آنسو پوچھنے کے کچھ اسباب ہوسکیں، اورعام سندھیوں کی اس ضمن میں مزاحمت کم ہوجائے، اور ایسی زمینوں پر قانونی طور پر صرف عام شہریوں کو ملکیت دی جائے، اورجوانوں کے علاوہ کسی بھی اعلیٰ فوجی افسر کو زمین الاٹ نہ کی جائے) ، قبائلی علاقوں میں پس منظر میںمتحرک پاکستان دشمنوں کو بے نقاب کرے، عوام کو اس بارے میں آگاہ کرے، اور دوست نما دشمنوں کو بھی پاکستانی سرحدوں سے دور رکھنے کی سعی کرے، اور ملکی ترقی کے دور رس منصوبے تیارکرے۔ اور پاکستانی قوم کو یہ کہہ کر نہ پچھتانا پڑے، اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

Zardari says India never a threat: Kashmiri freedom fighters are terrorist ...?

Mon, Oct 6 2008. 12:15 PM IST
Islamabad: Pakistani President Asif Ali Zardari said in an interview that arch-enemy India had never been a threat to his country and that Islamic militant groups in Indian-controlled Kashmir were “terrorists.”
Zardari also indicated in the interview with the Wall Street Journal that there was an “understanding” with the United States over US missile strikes on Al-Qaeda and Taliban targets in Pakistan’s troubled tribal areas.
India and Pakistan launched a peace process in 2004 but relations between the nuclear-armed nations remain tense amid accusations that Islamabad’s powerful intelligence agencies are sponsoring Islamic militancy.
“India has never been a threat to Pakistan,” Zardari, who came to power in September after the new civilian government ousted President Pervez Musharraf, said in the interview.
Asked if he would consider a free-trade pact with India, he said: “I, for one, and our democratic government is not scared of Indian influence abroad.”
The paper said that Zardari, the widower of slain former premier Benazir Bhutto, called Islamic militants “terrorists” during the interview, apparently the first time that any Pakistani leader has referred to them as such.
India has long accused Pakistan of sponsoring an 18-year-old Islamist insurgency in the part of the divided Himalayan territory of Kashmir that is controlled by New Delhi.
Pakistan denies the claim but has often spoken in support of those fighting for what it calls the right to self-determination in Kashmir, while state television runs daily segments on alleged Indian atrocities in the region.
Meanwhile the paper said that Zardari acknowledged that missile strikes by US pilotless drones based in Afghanistan were carried out with Islamabad’s consent.
“We have an understanding, in the sense that we’re going after an enemy together,” he was quoted as saying when asked about the strikes.
Zardari’s comment on the US incursions comes just days after he told the UN General Assembly that Pakistan “cannot allow our territory and our sovereignty to be violated by our friends.”

Zardari tells Nawaz agreements not holy like Quran or Hadith, can be changed

August 24th, 2008 - 1:56 pm ICT by ANI

Lahore Aug 24 (ANI): Responding to PML-N leader and former premier Nawaz Sharifs repeated insistence that the PPP should fulfill its promise of restoring sacked judges, PPP Co-chairman Asif Ali Zardari said that agreements with PML-N are not holy like the holy Quran and the Hadith and can be modified if circumstances change.

He said this in an interview with BBC Urdu on Saturday, reported the Daily Times.

Earlier, on Saturday, Sharif had said in a press conference that Zardari had agreed that the sacked judges would be reinstated within 24 hours of former president Pervez Musharrafs impeachment or resignation. What happened to your promise? Nawaz said during the press conference.

Political parties do not make promises, they only arrive at understandings, Zardari said and added that political understandings are sometimes 50 percent successful, and sometimes more than that, but are still considered successful

To a question if the judges would be restored, Zardari said in the interview: Inshallah Asked when they would be restored, Zardari said he did not believe in countdowns or count-ups and could not give a timeframe.

Regarding Musharrafs resignation, he said that the PPP did not believe in political vendetta, adding that Zulfikar Ali Bhutto had not impeached Yahya Khan. Bhutto did not impeach Yahya Khan because in that case General Niazi would also have been impeached, and Sheikh Mujeeb had been asking India to hand Niazi over to Bangladesh, the BBC quoted Zardari as saying. (ANI)

صحافی سب بڑے دہشتگرد ہیں، صدر زرداری کی سرحد چیمبر کے ارکان سے گفتگو

Monday, January 19, 2009, Muharram-ul-Haram 21, 1430 A.H
پشاور ( رپورٹ … رحیم اللہ یوسف زئی ) صدر آصف علی زرداری میڈیا سے اس قدر ناخوش دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے حال ہی میں صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد کے ایک وفد کو بتایا کہ پاکستان میں صحافی سب سے بڑے دہشتگرد ہیں۔ 15جنوری کو اسلام آباد میں صدر سے ملاقات کرنے والے سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے وفد کے ارکان نے صدر زرداری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ صحافی معاملات کی غلط رپورٹنگ کرتے ہیں اور صورتحال کو غیر معروضی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر محسوس کرتے ہیں کہ میڈیا کو حساس معاملات سے بہت احتیاط سے نمٹنا چاہیے۔ صدر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے فاٹا اور سرحد میں دہشتگردی کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیے کہ ”صحافی سب سے بڑے دہشت گرد ہیں “۔ ان کے خیال میں صحافی خود دہشت گردوں سے بھی بڑے دہشتگرد ہیں۔ وفد کے کچھ ارکان نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے دی نیوز کو بتایا کہ وہ صدر زرداری کے ریمارکس پر حیران تھے کیونکہ وہ سیاق وسباق سے ہٹ کر تھے اور صدر نے اپنے ان ریمارکس کا جواز پیش کرنے کیلئے کہ صحافی دہشتگرد ہیں ، میڈیا کی جانب سے حقائق مسخ کرنے کی کوئی مثال پیش نہیں کی۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما ،جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے ، نے اس بات کی تصدیق کی کہ صدر نے صحافیوں کے دہشت گرد ہونے سے متعلق بیان دیا تھا۔ دریں اثناء ایوان صدر کے ایک قریبی ذریعے نے دعوی کیا ہے کہ صدر صحافیوں کو دہشت گرد قرار نہیں دے سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ صدر صحافیوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زرداری کے ماضی میں بہت سے دوست صحافی تھے اور اس وقت بھی ان کے صحافیوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ انہوں نے اصرار کیا کہ کئی مرتبہ ان کی موجودگی میں صدر نے صحافی برادری کی تعریف کی۔ صدر سے ملاقات کرنے والے سرحد چیمبر کے وفد کے کئی ارکان نے کہا کہ انہیں صدر سے اپنی ملاقات کے نتیجے سے مایوسی ہوئی۔