Justuju Tv جستجو ٹی وی

Monday, January 19, 2009

From Bushism to Aasifiyaath بش ازم سے آصفیات تک

بش ازم سے آصفیات تک


Mon, 29 Sep 2008 21:24:0

جب نومنتخب صدرپاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس عام کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی اہم بین الاقوامی رہنماؤں سے ملاقات کی تو پاکستانی قوم یہ توقعات لگائے بیٹھی تھی کہ وہ اس موقع پر پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقدمہ مکمل سنجیدگی سے لڑیں گے، اور اس اہم اجلاس کے موقع پر اپنے خطاب سے بھی بقول شخصے سامعین پر چھا جائیں گے۔ تاہم افسوس کہ یہ امیدیں پوری نہ ہوسکیں۔ ان کی باتوں سے یہ محسوس ہوا کہ جناب صدر محترم ابھی تک اپنے ذاتی صدمات میں محصور، اور حادثاتی اڑان ہی بھر رہے ہیں۔
اڑان کے ذکر سے ہمیں یاد آیا کہ عربوں میں ایک لطیفہ خاصہ مقبول ہے۔ آپ کو بھی سنائے دیتے ہیں۔ ایک شخص ایک لائبریری میں داخل ہوا، جو شاید کسی سول ایوی ایشن کے دفتر کی، اور ائیرپورٹ کے قریب تھی۔ وہاں اس نے ادھر، اُدھر دیکھ کر ایک کتاب اٹھالی، جس کا عنوان تھا، جہاز کس طرح اڑائیں! وہ کتاب باتصویر، رنگین، اور قدم بقدم ہدایات سے مزین تھی۔ اس نے آؤ دیکھا، نہ تاؤ، اور چپکے سے وہ کتاب بغل میں دبائی اور ایک ہوائی جہاز میں سوار ہوگیا۔ اس کے کل پرزوں سے کچھ چھیڑچھاڑ کی، کچھ کتابی ہدایات پر عمل کیا، خدا کا کرنا، وہ جہاز ہوا میں بلند ہوگیا۔ اور کسی نہ کسی طرح ڈولتا، ڈالتا، وہ اڑنے لگا۔ جلدہی ان نئے نویلے پائلٹ صاحب کو زمین کی یاد ستانے لگی، اور انہوں نے کتاب میں جہاز اتارنے کی ہدایات تلاش کرنا شروع کردیں۔ اس کتاب کے آخری صفحہ پر تحریر تھا، مبارک ہو، اب آپ جہاز اڑانا سیکھ گئے۔ اب اسے اتارنے کے طریقوں کے بارے میں کتاب کا دوسر ا حصہ ملاحظہ کریں۔
کہا جاتا ہے کہ جب روم میں ہوتو ویسا ہی کرو، جیسا کہ رومی کرتے ہیں، یعنی کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔ اس مقولہ پر عمل کرتے ہوئے ہمارے کچھ پاکستانی بھائی (اور شاید کچھ بہنیں بھی) کھَل کھیلتے ہیں، اور اسلامی اور پاکستانی اخلاقی اقدار کو پچھلی جیب یاپرس میں ڈال کر، ملحدانہ اورکافرانہ اقدار کو اپنا لیتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ شراب نوشی، اور جنسِ مخالف سے دوستی کے وہ درجات ہیں جن پر فائز ہونا کچھ پاکستانیوں کے لیے باعثِ فخر ہوتا ہے۔ ساقی فاروقی کی پاپ بیتی ، یا اخترممونکا کی پیرس( چند) کلومیٹر، وغیرہ پڑھ ڈالیں، آپ کا دماغ روشن نہ ہوجائے توکہیے گا۔ یقیناً ایسی کئی کتابیں اور بھی ہوں گی ، جن میں اس قسم کے ناقابل فخر کارناموں کے تذکرے بھرے پڑے ہیں۔ جب کہ ان کے مقابلہ میں سچے پاکستانیوں کے سفرنامے بھی موجود ہیں، مثلاً فخر پاکستان، جناب جمیل الدین عالی صاحب کے، دنیا میرے آگے، تماشہ میرے آگے، جناب ابن انشاء مرحوم کا سفرنامہ چلتے ہو تو چین کو چلیے، وغیرہ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے صدر محترم کا ایک امریکی حسینہ کے حسن و جمال کی تعریف کرنا ، اور اس کے گلے پڑنے کی خواہش کا معصومانہ اظہارامریکی ثقافت کے لحاظ سے، اور ہماری اپنی ثقافت کے حساب سے کیسا رہا۔ پاکستانیوں کے لیے ہر مغربی خاتون، خاص طور پر سفید جلددارن، خاصی دل کشی رکھتی ہے۔ جناب علی سفیان آفاقی نے اپنے کئی سفرناموں میں اس امر کا خاص تذکرہ کیا ہے کہ ان کے بقول، یورپ وغیرہ میں چپہ، چپہ پر ایسی خوب صورت خواتین مل جاتی ہیں، جن کی پاکستان آمد پر بھاری سے بھاری پاکستانی فلمی ہیروئن ہلکی پڑجائے۔ تاہم، اس بارے میں ہمارے استاد محترم، جناب مشتاق یوسفی صاحب کا بھی یہی کہنا ہے کہ برطانیہ وغیرہ میں بدصورت خواتین خال، خال ہی ہوتی ہیں، اور یہ پاکستانیوں کا ہی کارنامہ ہوتا ہے کہ وہ شادی بیاہ کے لیے انہیں ہی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ اب آپ خود ہی ملاحظہ کریں، محترمہ سارہ پیلن، اپنی نوجوانی میں اپنے علاقہ میں ملکہ ء حسن رہ چکی ہیں۔ وہ ایک بھرپورزندگی گزار چکی ہیں، پرمسرت شادی شدہ، پانچ بچوں کی ماں ہیں، اور اب بھی خاندانی مصروفیات کو ترجیح دیتی ہیں۔ خود ان کی ایک بیٹی اپنی قانونی بلوغیت حاصل کرنے سے پہلے ہی حاملہ ہوچکی ہے، اور اب اپنے اس دوست سے منگنی اور شادی کا منصوبہ بنا رہی ہے ، جو اس معاملہ میں ذمہ دار ہے۔ 44 سالہ سارہ پیلن کا حسن نوجوانوں کے لیے تو شاید ماند پڑچلا ہو، مگر آخر خاصے بوڑھے امریکی بھی تو ابھی تک زندہ ہیں، اورگر ان کے ہاتھوں میں جنبش نہیں توکیا، ان کی آنکھوں میں تو دم ہے۔ اور وہی اپنے ووٹ ڈالنے ضرور جاتے ہیں، جب کہ نوجوان امریکی ضروری نہیں کہ اسی سطح تک اپنے ووٹوں کا استعمال کرتے ہوں۔ اسی طرح خاصے عمر رسیدہ پاکستانی بھی ہیں، جو کسی بھی چانس کے نہ ہوتے ہوئے بھی سارہ پیلن کی خوب صورتی سے آنکھیں سینکتے اور تیز کرتے ہیں، اور ان کی موجودگی میں مکمل فدوی کا روپ ڈھال لیتے ہیں۔ ان کے جمال کے سامنے زبانیں لڑکھڑاجاتی ہیں، اور الفاظ گڈمڈ ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہیں آرہا تو آپ خود ہی سارہ پیلن کی تصاویر ملاحظہ کیجیے، اور پاکستانی صدر، اور پاکستانی وزیرہ ء اطلاعات کے بارے میں خبریں دیکھ، اور پڑھ لیں، وہ دونوں ہی سارہ پیلن کے حسن کی تاب نہ لاسکے، گویا کہ مرد تو مرد، عورتیں بھی ان پر مر مٹ رہی ہیں۔ چونکہ اب امریکی مرد اور خواتین خاصی تعداد میں جنس مخالف کے بجائے ہم جنسی کو اپنے لیے بہتر سمجھ رہے ہیں، کسی عورت کا بھی کسی دوسری عورت کے خدوخال کی تعریف کرنا وہاں ایک خاص معنی رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر، حال ہی میں مشہور امریکی کامیڈین خاتون ایلین ڈی جنریس نے اپنی ایک ساتھی خاتون کے ساتھ شادی کرڈالی ہے۔ اسی طور کئی مشہور امریکی مرد بھی اسی قسم کی یک جنسی شادی پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ تذکرہ ہم نے اس لیے کیا کہ، امریکی ثقافت کا موجودہ حال آپ کے سامنے تازہ ہوجائے۔ بہر حال، امریکی خواتین کتنی ہی آزاد خیال کیوں نہ ہوں، عام طور پر وہ بھی جنس مخالف سے سرعام گلے نہیں لگا کرتیں۔ آپ ہالی وڈ کی فلموں کے مناظر کا حوالہ نہ دیں، وہ بھی کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں جیسے کہ پاکستانی فلموں میں بلڈوزر نما ہیروئن کے کھیتوں میں غیرسنسرشدہ رقص، جن کے نتیجہ میں وہ زرعی زمینیں برسوں تک بنجر ہوجایا کرتی ہیں،جن میں یہ رقص فلمائے جاتے ہیں۔
امریکی صدر کا انتخاب لڑنے والے جان مکین، جو قدیم عظیم پارٹی، یعنی ری پبلیکن کے امیدوار ہیں، وہ بھی سارہ پیلن کو اپنی انتخابی مہم کے دوران اکثر گلے لگا کر ان کی صلاحیتوں کی تعریف کرتے رہے۔ وہ خاصے عمر رسیدہ (لگ بھگ 74 برس کے) امریکی ہیں، تاہم ان کی اس حرکت سے دوسروں کو بھی ہلا شیری ملی ہے۔ اور ان کے دل و دماغ میں بھی کچھ، کچھ ہونے لگا ہے۔ یہ امر دل چسپ ہے کہ امریکہ میں دیگر مغربی ممالک کی طرح جنسی ہراسانی کے سخت قوانین موجودہیں۔ دفاتر میں کسی بھی ساتھی خاتون کی خوب صورتی کی تعریف اس کی مرضی کے بغیر کردینا ملازمت سے برخاستگی، اور جیل کی ہوا تک کھلا سکتا ہے۔ مگر سابق صدر بل کلنٹن کی وائٹ ہاؤس کے پردوں کے پیچھے بلیک حرکات نے انہیں خاصہ بے عزّت کیا، اور امریکیوں میں ان امور پر اس قدرکھل کر لے دے ہوئی کہ بچے بھی یہ سب جان کر بالغ نظرہوگئے۔ اور زیادہ وقت نہیں گزرا کہ موجودہ امریکی صدر جارج بش نے یورپ میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر جرمن چانسلر خاتون کے کندھوں پر پیچھے سے آکر اپنے ہاتھ جمادیے۔ اس حرکت کا جرمن چانسلر نے بہت برا مانا، اور وہ وہاں سے اٹھ کر چل دیں۔امریکی میڈیا میں اب سارہ پیلن کے بارے میں یہ رائے بنتی جارہی ہے کہ وہ قومی سطح کی رہنمائی اور بین الاقوامی تعاون و تعلقات کے لیے مطلوبہ علم و مطالعہ نہیں رکھتیں، اورمختلف اہم قومی امور ، مثلاً حالیہ امریکی مالی بحران اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ان کی فکر بہت سطحی سی ہے۔
موجودہ امریکی صدرجارج بش گول مول اور اپنے مطلب کے برعکس بول اٹھنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی اس عادت کو بش ازم کا نام دیا گیا ہے، اور اس پر کتابیں بھی تحریر کی جاچکی ہیں۔ بلا سوچے سمجھے بولنے کی ایسی ہی عادت شاید پاکستانی صدر کو بھی پڑرہی ہے۔ چنانچہ ان کی اس خصوصیت کو آصفیات کا نام دیا جا سکتا ہے۔
جارج بش کی اپنی سمجھ، انگلش کی گرامر اور کمپوزیشن بھی خاصی کمزورہے۔ چنانچہ ہمارے پاکستانی صدر محترم صاحب کو بھی کسی جگہ انگلش میں اپنے خیالات و جذبات کو تحریر کرتے وقت خطا ہوجانے پر قطعی پریشان نہ ہونا چاہیے۔ دشمنوں نے مزارِ قائد پر ان کی حاضری کے وقت رجسٹر پر ریکارڈ کیے جانے والے چند جملے اڑا لیے ہیں۔ مگر ہم تمام تر سنجیدگی سے یہ کہتے ہیں کہ چونکہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، کسی اور زبان میں تحریر کا نہ تو کوئی اثبات ہے، اور نہ ہی اس میں کسی ہجے وغیرہ کی غلطی کوئی معنی رکھتی ہے۔ ہم نے خود اچھے اچھے امریکی اور پاکستانی اخبارات کی رپورٹوں میں ہجوں اور گرامر کی غلطیاں دیکھی ہیں۔ چنانچہ ایسے معاملات کا دفاع کرنا ضروری نہیں، اور قومی زبان کا استعمال اس کا بہترین علاج ہے۔
اسی طرح ہمارے صدر صاحب، بش ازم کی طرح ہرجگہ جمہوریت کازبانی کلامی سہارا لیتے ہیں، جسے آصفیت کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ہر مسئلہ اور سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے (چاہے متذکرہ معاملہ کسی انتقامی کارروائی کا متقاضی ہو یا نہ ہو!) ، جمہوریت ہی سب سے بڑی قوت ہے، کشمیر کا مسئلہ بھی اب عوامی قوت ہی حل کرے گی، الخ۔ مگر پاکستانی عوام پر یہ رمز نہیں کھلتا کہ یہ جمہوریت پائی کہاں جاتی ہے۔ موجودہ رہنما بھی ایک خاندانی وصیت کے سہارے تخت پر براجمان ہیں، نہ کہ کسی ایسے سخت امتحانی جمہوری عمل سے جس سے امریکی رہنما گزرتے ہیں۔ سال بھر تک ایسا بحث و مباحثہ ہوتا ہے، مخالفین کے درمیان، کہ ان کی صلاحیتوں کی تمام تر قلعی کھل جاتی ہے۔ اگرپاکستانی جمہوریت کا گھر پارلیمان ہے تو وہ گھر خالی ہے۔ اور وہ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ، خانہ ء خالی را دیو می گیرد۔خالی گھر پر دیو اور جنات وغیرہ قبضہ کرلیتے ہیں۔ اگر پارلیمانی ایوان اسی طرح اکثر بھائیں، بھائیں کرتا رہا تو پاکستان میں جناتی جمہوریت کا رواج ہوجائے گا۔
اب نئی حکومت کو زمام اقتدار سنبھالے ہوئے خاصہ عرصہ گزرگیا ہے، اور اب ہمارے وزیراعظم، اور جناب صدر محترم کو جہاز اڑانے اور اتارنے کی دونوں کتابوں کو بیک وقت پڑھ کر اپنے قدموں پر کھڑا ہوجانا چاہیے، نا کہ صرف شہید محترمہ کی تصویرکی پوجا کرتے، جمہوری بچہ جمورا بنے رہیں، اور عملی طورپر محترمہ کی پالیسیوں اورحامیوں، اور خیالات کی نفی کرتے رہیں۔ جیسا کہ عدلیہ کی بلا داغ بحالی،سینئرمعزز پارٹی رہنماؤں کی عملی واپسی، پاکستانی سرحدوں کا پرعزم اور بے خوف دفاع، اور اپنے عوام، بشمول قبائلی عوام کے جان ومال کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کرنا ہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ جمہوری ممالک میں ہر بڑی سیاسی پارٹی قومی امور پر اپنے موقف کا کھل کر اظہار کرتی ہے، اور برسراقتدار آتے ہی فوری طور پر اپنی پہلے سے اعلان کردہ نئی پالیسیاں نافذ کردیتی ہے۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ ابھی ہمیں آئے ہوئے دن ہی کتنے گزرے ہیں ۔۔۔۔ ذرا چھری تلے دم تو لے لینے دو، ظالمو۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اب حکومت پارلیمانی نظام کو چلنے دے، اور صدارتی عہدہ کو علامتی ہی رہنے دے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی اپنی شہید رہنما کو اس طرح بہتر طریقہ پر خراج عقیدت پیش کرسکتی ہے کہ وہ بجائے موجودہ سہولیات کے تبدیلی ء نام کے جذباتی اعلانات کے، صرف ٹھوس نئے ترقیاتی منصوبے بناکران کو محترمہ کے نام سے نا صرف منسوب کرے، بلکہ دن رات جدوجہد، محنت کرکے انہیں پایہ ء تکمیل تک بھی پہنچائے۔ کالاباغ ڈیم تعمیر کرکے اسے ضرور ایک بے نظیر ڈیم کا نام دے، پاکستانی عوام کے خشک گلوں کو تر، اور وسیع پیمانہ پر بنجر زمینوں کو سیراب کرکے زرعی اور غذائی اور سماجی انقلاب کی بنیاد رکھ دے( اس ضمن میں سندھیوں اور بلوچیوں کو بھی بالائی پاکستان کے علاقوں میں نوآبادگار کا درجہ دے کر انہیں ویسے ہی نئی نویلی نہری زمینیں الاٹ کی جائیں جیسا کہ اسکندرمرزا اور ایوب خان کے زمانہ میں 1957 میں سندھ میںگدو سکھربیراج بنانے کے وقت کیا گیا تھا، تاکہ اس مرتبہ ان کے آنسو پوچھنے کے کچھ اسباب ہوسکیں، اورعام سندھیوں کی اس ضمن میں مزاحمت کم ہوجائے، اور ایسی زمینوں پر قانونی طور پر صرف عام شہریوں کو ملکیت دی جائے، اورجوانوں کے علاوہ کسی بھی اعلیٰ فوجی افسر کو زمین الاٹ نہ کی جائے) ، قبائلی علاقوں میں پس منظر میںمتحرک پاکستان دشمنوں کو بے نقاب کرے، عوام کو اس بارے میں آگاہ کرے، اور دوست نما دشمنوں کو بھی پاکستانی سرحدوں سے دور رکھنے کی سعی کرے، اور ملکی ترقی کے دور رس منصوبے تیارکرے۔ اور پاکستانی قوم کو یہ کہہ کر نہ پچھتانا پڑے، اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

No comments: