Justuju Tv جستجو ٹی وی

Monday, March 2, 2009

ذوالفقار بھٹوکے ساتھ جوہواعین انصاف تھا۔شکریہ صدرمملکت


2009-03-02 00:00:00 PST
ذوالفقار بھٹوکے ساتھ جوہواعین انصاف تھا۔شکریہ صدرمملکت

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل غلام محمد کو جیسے ہی بھنک پڑی کہ مجلس قانون ساز انہیں وفاقی اسمبلی کی برطرفی کے اختیارات سے محروم کر کے محض ایک نمائشی گورنر جنرل میں تبدیل کرنا چاہتی ہے تو غلام محمد نے پہلے وار کرتے ہوئے 24اکتوبر54ءکو اسمبلی ہی توڑ دی اور وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کو نئی حکومت کی تشکیل تک قائم مقام وزیراعظم میں تبدیل کردیا۔بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق برطرف اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین روپوش ہوگئے اور پھر اچانک برقعہ میں چھپ کر سندھ چیف کورٹ میں چیف جسٹس کانسٹنٹائین کے سامنے گورنر جنرل کے فیصلے کو چیلنج کردیا۔مولوی تمیز الدین نے اس مقدمے کے لیے برطانوی وکیل ڈی این پرٹ کی خدمات حاصل کیں۔جنہیں حکومت نے گرفتار کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔بحرحال جسٹس کانسٹنٹائین کی عدالت نے گورنر جنرل غلام محمد کے اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔حکومت نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس محمد منیر کی عدالت میں اپیل دائر کردی۔مولوی تمیز الدین کے پاس مسٹر پرٹ کو سپریم کورٹ میں مقدمے کی فیس دینے کے پیسے نہیں تھے ۔برطرف اسمبلی کے کسی ممبر نے بھی غلام محمد کے ڈر سے مولوی تمیز الدین کا مالی و اخلاقی ساتھ دینے سے گریز کیا۔چنانچہ مسٹر پرٹ نے ازراہ عنایت یہ مقدمہ بغیر فیس کے لڑا۔جسٹس منیر نے سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ بدل دیا اور گورنر جنرل کی جانب سے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو جائز قرار دے دیا۔اس فیصلے پر عدالتی و سیاسی حلقوں میں خاصی تنقید ہوئی لیکن گورنر جنرل کی دلیل تھی کہ یہ فیصلہ عدالت عالیہ نے کیا ہے اس لیے ہم سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ستمبر77ءمیں بیگم نصرت بھٹو نے جنرل ضیاءالحق کے اقتدار سنبھالنے کے اقدام کو چیلنج کیا۔چیف جسٹس انوار الحق کی سپریم کورٹ نے حکومتی وکیل شریف الدین پیرزادہ کی یہ دلیل قبول کرلی کہ آئین معطل کیا گیا ہے منسوخ نہیں کیا گیا اس لیے ملک کو دوبارہ آئینی پٹڑی پر چڑھانے کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت جنرل ضیاءالحق کو آئین میں ضروری ترامیم کی اجازت دی جائے ۔یوں عدالت نے جنرل ضیا الحق کے اقتدار سنبھالنے کے عمل کو جائز قرار دے دیا ‘اس فیصلے پر بھی خاصی تنقید ہوئی لیکن جنرل ضیا الحق نے کہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے جس کا احترام ہم سب پر لازم ہے۔مارچ79ءمیں چیف جسٹس انوارالحق کی سپریم کورٹ نے 3 کے مقابلے میں 4کی اکثریت سے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مولوی مشتاق حسین کا یہ فیصلہ برقرار رکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مجرم ہیں اس لیے انہیں سزائے موت دی جاتی ہے ۔پیپلز پارٹی اور اکثر عالمی ماہرین قانون نے اس فیصلے کو بھٹو کا عدالتی قتل قرار دیا لیکن جنرل ضیا الحق کا اصرار تھا کہ یہ فیصلہ انہوں نے نہیں بلکہ اعلیٰ ترین عدالت نے کیا ہے لہٰذا فیصلے کا احترام ضروری ہے ۔2000ءمیں چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں جنرل پرویز مشرف کو اجازت دی کہ وہ ملک میں جمہوری عمل کو بحال کرنے کے لیے آئین میں ضروری ترامیم کرسکتے ہیں۔یوں عدالت نے جنرل پرویزمشرف کے اقتدار سنبھالنے کے عمل کو آئینی چھتری فراہم کردی۔جنرل پرویزمشرف کا اس فیصلے پر تنقید کرنے والوں کے لیے یہی جواب تھا کہ ہم سب کو سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش دلی سے تسلیم کرلینا چاہیے ۔25فروری 2009ءکو چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی قائم کردہ3رکنی بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے شریف برادران کی نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا۔صدر آصف علی زرداری نے ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو نصیحت کی کہ یہ اعلیٰ عدالتی فیصلہ ہے اور عدالتی فیصلے پر تنقید اور ایجی ٹیشن کسی کو زیب نہیں دیتا۔صدر زرداری کے اس تاریخی جملے سے اور کچھ ہو یا نہ ہو جسٹس محمد منیر ، جسٹس مولوی مشتاق حسین، جسٹس انوارالحق اور جسٹس ارشاد حسن خان کے فیصلے متنازعہ نہیں رہے ۔یوں مولوی تمیز الدین اور بیگم نصرت بھٹو کے مقدمے اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جو ہوا وہ عین انصاف تھا۔تھینک یو پریذیڈنٹ زردادی ۔۔ ۔۔تھینک یو ویری مچ۔

 

No comments: